کیا حقیقت میں یسوع مسیح آسمان سے اُترے ہے؟

تعارف

اس سے پہلے کہ ہم شروع کریں ہمارے لیے ایک بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ خُداوند یسوع مسیح  خُدا کا بیٹا ہے۔ وہ خدا کے سوا تمام کائنات کا سب سے بڑا وجود ہے۔اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یسوع مسیح کو عزت دینا ہے جیسی عزت یسوع مسیح کو دی جانی چاہیے۔

بدقسمتی سے  خداوند یسوع مسیح کی پہچان کے بارے میں بائبل کی تعلیم کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔یسوع مسیح کی پہچان بہت اچھے لفظوں میں بیان تو کیا جاتا ہے مگر علم کا فقدان ہونے کی وجہ سے وہ کوشش گمراہ کُن ہوتی ہے۔ بہت سے گرجا گھروں(چرچوں) میں یسوع کے بارے میں ایسی چیزیں پڑھائی جاتی ہیں جو بائبل میں نہیں ہیں۔ اس لیے یہ کتاب اُن غلط خیالات کو درست کرنے کے لئے تیار کی جا رہی ہے۔ یہ کتاب کسی کے مذہب پر تنقید کرنے کی خواہش سے نہیں لکھی جا رہی  ہےبلکہ صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ بائبل واقعی یسوع خُدا کے بیٹے کے بارے میں کیا تعلیم دیتی ہے ۔اور جب ہم یہ بات سمجھیں گے توہم خداوندیسوع مسیح کو وہ عزت و جلال دے سکتے ہیں جس کا وہ حقدار ہے۔

 

 

Alan Hayward

 

 

 

 

 

 

 

 

"میں آسمان سے نیچے آیا ہوں"

اس کتاب کا عنوان ایک سوال ہے کہ کیا حقیقت میں یسوع مسیح آسمان سے اُترے ہے؟   یوحنا کی انجیل کے 6باب میں ہمیں ایک ایسی آیت ملتی ہے جس میں ہمیں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ یسوع نے کہا " کیونکہ مَیں آسمان سے اِس لِئے نہیں اُترا ہُوں کہ اپنی مرضی کے مَوافِق عمل کرُوں بلکہ اِس لِئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے مُوافِق عمل کرُوں۔" (آیت 38)  مگر ہمیں جلد ہی کسی نتیجے (انجام ، اختتامیہ )تک نہیں پہنچنا چاہئے۔ کیونکہ یہ مضمون اتنا آسان نہیں ہے جتنا دیکھنے میں لگتا ہے۔اور یہ مشکل اس لیے پیش آتی ہے کیونکہ زبان کی دو بہت مختلف قسمیں ہیں ایک لفظی زبان اور دوسری علامتی زبان۔اور اس باب میں ان دونوں زبانوں کا یسوع مسیح نے استعمال کیا ہیں جس پر ہم غور و فکر کر رہے ہیں۔  

آیت 64 میں یسوع مسیح نے کہا "مگر تم میں سے بعض اَیسے ہیں جو ایمان نہیں لائے۔" یہ لفظی زبان ہے۔ اس کا مطلب بالکل وہی ہے جو یسوع کہہ رہا  ہے۔ یہاں تک کہ ایک بچہ بھی اس کےمطلب کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتا ہے۔مگر بہت ساری آیا ت ایسی نہیں ہیں ۔ مثال کے طور پر53اور54آیات کو لیں اور یہاں یسوع کہتا ہے " مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تک تُم اِبنِ آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اُس کا خُون نہ پِیو تُم میں زِندگی نہیں۔ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خُون پِیتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے۔" اور یہ علامتی زبان ہے۔اس کا مطلب بالکل وہی نہیں جو بولا گیا ہے بلکہ اس کے مطلب میں بہت گہرا ئی ہے اور اس کے اصل مطلب دریافت (تلاش) کرنے کے لیے ہمیں بہت دھیان سے سوچنے کی ضرورت ہوگی۔  نتیجاًاگر ہم نے دھیان نہیں دیا تو کبھی بھی غلط فہمی میں باآسانی پڑھ سکتے ہیں۔اس معاملے میں حقیت یہ ہے کہ یہودیوں کی بے ایمانی کی وجہ سے اُنہوں نے بھی اس بات کو غلط سمجھااوراُسی طرح سے یسوع کو جواب دینے لگے ۔اُنہوں نے کہا  "یہ شخص اپنا گوشت ہمیں کیوں کر کھانے کو دے سکتا ہے؟" شاید اُنہوں نے سوچا ہوگا کہ یسوع آدم خوری کی تبلیغ(منادی) کر رہا ہے۔ جوکچھ بھی اُنہوں نے سوچا وہ نہایت ہی غلط تھا۔

بہرحال آپ اس بیان "میں آسمان سے نیچے آیا ہوں "کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔کیا یہ لفظی ہے یا علامتی ؟

اس بیان کو علامتی طورپر دیکھنے کی وجہ اچھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اِسی باب کی 31 آیت میں ایک ذکر ملتا ہے جہاں یہ واضح ہے کہ  پُرانے عہد نامے میں " مَنّ "کو کیا بُلایا گیا ہے۔ وہ ایک قسم کی روٹی تھی  جو خُدا نے معجزے کے ذریعے اپنے لوگوں کو جب وہ بیابان میں تھے کھانے کو دی۔ اور آیت 31 کے الفاظ یہ ہیں ۔ " اُس (خُدا )نے اُنہیں کھانے کے لِئے آسمان سے روٹی دی۔" یہ ظاہری طور پر علامتی زبان ہے۔  یہ معجزاتی روٹی آسمان میں نہیں پکائی گئی اور پھر زمین پر پہنچا دی گئی۔ یہ بیان کہ وہ آسمان سے آئی ہمیں بتاتا ہے کہ آسمان کے خُدا نے اُسے زمین پر پیدا کیا۔

 ایک مشہور گیت  ہے جسے لوگ فصل کے وقت گاتے ہیں۔جس کا کورس اسطرح سے شروع ہوتا ہے کہ "ہمارے آس پاس ہر اچھے تحائف (تحفے )آسمان سے بھیجے گئے ہیں۔" اور یہ الفاظ سیدھا نئے عہد نامہ یعقوب 17:1سے لئے گئے ہیں۔ جو کہ یہ کہتے ہیں کہ ہر اچھا تحفہ "اُوپر سے ہے نُوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے۔" جب کسان اس گیت کو گاتے ہیں۔تووہ تصور (خیال)نہیں کرتے کہ اُن کی فصلیں لفظی طور پر "اُوپر آسمان سے" اتر آئیں بلکہ اُس کا سیدھا اور صاف مطلب ہے کہ خدا ہمیں ہماری فصلیں دیتا ہے۔

مزید علامتی زبان

بائبل کی علامتی زبان بلکل اِسی طرح چیزوں کے ساتھ ساتھ آدمیوں کے بارے میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ " ایک آدمی یُوحنّا نام آ مَوجُود ہُؤا جو خُدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔"جبکہ یوحنا کبھی آسمان میں نہیں تھا۔ خُدا کی طرف سے بھیجا گیا جس کا آسان مطلب ہے  کہ خُدا نے اُسے ایک خاص کام کرنے کو دیا۔ مگر یہ وضاحت صرف اُن آیات پر ہی لاگو ہوسکتی ہے جو درحقیقت یسوع کے آسمان سے "نیچے آنے" کی بات کرتی ہیں۔ بہت سارے ایسے حوالے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے تجویز کرتے ہیں کہ یسوع ایک بار زمین پر ظاہر ہونے سے قبل آسمان میں رہتے تھےاور یہ حوالہ اُن میں سے ایک ہے"(یسوع نے کہا) اور اب اَے باپ! تُو اُس جلال سے جو مَیں دُنیا کی پَیدایش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مُجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔(یوحنا 5:17)

ہم اس طرح کی آیات کو کس طرح سے سمجھے ؟۔

 کیا وہ لفظی ہیں ، یا علامتی؟۔

 کیا یسوع درحقیقت دُنیا کی پیدائش سے پیشترخُدا کے ساتھ آسمان میں رہا؟۔

یا کیا یہ الفاظ ( کلام ،آیات)اس سے کہیں زیادہ گہرے معنی رکھتے ہیں؟

اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ بائبل ہمارے لئے خود  ہی بولے اور ان سوالات کے  جواب دیں۔

 

 

 

 

یسوع کے بارےمیں تین نظریے۔

وہ لوگ جو بائبل پر ایمان نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ یسوع صرف ایک عام آدمی تھا۔وہ سب غلط ہیں۔ خُدا وند یسوع مسیح خُدا کا بیٹا تھااور ہمیں اِن کے نقطہ نظر پر غور کرنے میں وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ہمیں یسوع کے تین مختلف نظریات پر غور کرنا ہوگا جو بائبل پر ایمان رکھنے والے مسیحیوں کے ہیں۔

پہلا نظریہ جو اب تک سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر منعقد کیا جاتا ہے۔وہ یہ ہے کہ یسوع انسانی شکل (موجودگی)میں قادرِ مطلق خُدا ہے۔اورجو لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں وہ اکثر یسوع کو"تثلیث کا دوسرا فرد ،" بھی کہتے ہیں۔ اگرچہ اس جملے سے ان کا کیا مطلب ہے اس کی دریافت کرنا آسان نہیں ہے۔ اس نظریہ کے مطابق یسوع زمین پر ظاہر ہونے سے قبل ہمیشہ سےہمیشہ تک آسمان میں رہا۔

دوسرا نظریہ جسم جسے "یہوواہ کے گواہ"اور چند چھوٹے فرقوں کی طرف سے سیکھا یاجاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یسوع خُدا نہیں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک مُقرب فرشتہ ہے جسے خدا نے بہت پہلے پیدا کیا تھا اور اِن کا بھی ایمان ہیں کہ یسوع زمین پر رہنے سے قبل ہی ایک بہت طویل (لمبے) عرصے تک آسمان میں رہا۔

جو لوگ ان نظریات میں سے کسی ایک پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔در حقیقت وہ اُن آیا ت کو لفظی طور پر لیتے ہیں جو یسوع مسیح  کے آسمان سے آنے کی بات کرتیں ہیں۔

تیسرا نظریہ کرسٹاڈیلفئین اور کچھ دوسرے لوگوں کے پاس ہے۔اس نظریہ کے مطابق یسوع زمین پر پیدا ہونے سے قبل آسمان میں ذاتی طور پر نہیں رہتے تھےاور یسوع کی آسمانی اصل کی طرف اشارہ کرنے والی آیات کو علامتی طور پر سمجھنا چاہئے۔اوریہ ہی نظریہ ہے جس کو اس کتاب میں واضح کیا جائے گااور اگر اس بارے میں سوچ آپ کو حیرت (حیرانگی )میں ہے تو مہربانی سے صبر رکھے اور ہمارے ساتھ آگے پڑھتے جائے۔ اس نظریہ کی تائید(حمایت) کرنے کے لئے بائبل میں ثبوت کے طور پر بہت زیادہ مواد (آیات)ہے۔

 

 

 

 

یسوع سچ میں ایک انسان تھا۔

 یسوع ایک عام ، گنہگار آدمی (انسان )نہیں تھا۔ آئیے ہم اس کے بارے میں کوئی غلطی نہ کریں۔ وہ ایک خاص(الگ ہی قسم کا) آدمی تھا۔ وہ خدا کا بیٹا تھا۔ بہر حال  یسوع حقیقی معنوں میں ایک انسان تھا نہ کہ قادرِ مطلق خدا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسمانی طور پر آسمان  میں جاتے ہی یسوع نے انسان بننا چھوڑ دیا۔ بائبل ہمیں اب بھی  انسان کے طور پر اُس کے بارے میں تعلیم دیتی  ہے ۔ یسوع مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے اور آسمان پرچڑھ جانے کے کافی عرصہ بعد تک نیا عہد نامہ اس طرح کے بیانات دے رہا تھا۔"خُدا کا فضل اور اُس کی جو بخشِش ایک ہی آدمی یعنی یِسُو ع مسِیح کے فضل سے پَیدا ہُوئی بُہت سے آدمِیوں پر ضرُور ہی اِفراط سے نازِل ہُوئی۔ اور جَیسا ایک شخص کے گُناہ کرنے کا انجام ہُؤا بخشِش کا وَیسا حال نہیں کیونکہ ایک ہی کے سبب سے وہ فَیصلہ ہُؤا جِس کا نتِیجہ سزا کا حُکم تھا مگر بُہتیر ے گُنا ہوں سے اَیسی نِعمت پَیدا ہُوئی جِس کا نتِیجہ یہ ہُؤا کہ لوگ راست باز ٹھہرے۔ کیونکہ جب ایک شخص کے گُناہ کے سبب سے مَوت نے اُس ایک کے ذرِیعہ سے بادشاہی کی تو جو لوگ فضل اور راست بازی کی بخشِش اِفراط سے حاصِل کرتے ہیں وہ ایک شخص یعنی یِسُو ع مسِیح کے وسِیلہ سے ہمیشہ کی زِندگی میں ضرُور ہی بادشاہی کریں گے۔  غرض جَیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فَیصلہ ہُؤا جِس کا نتِیجہ سب آدمِیوں کی سزا کا حُکم تھا وَیسا ہی راست بازی کے ایک کام کے وسِیلہ سے سب آدمِیوں کو وہ نِعمت مِلی جِس سے راست باز ٹھہر کر زِندگی پائیں۔ کیونکہ جِس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بُہت سے لوگ گُنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بُہت سے لوگ راست باز ٹھہریں گے۔" (رومیوں15:5-19)

کیونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور اِنسان کے بِیچ میں درمِیانی بھی ایک یعنی مسِیح یِسُو ع جو اِنسان ہے۔(1 تِیمُتھِیُس5:2)

لہٰذا یسوع درحقیقت ایک انسان ہے اور یہ نئے عہد نامے کی بلاشبہ تعلیم ہے۔ اب ان الفاظ کا موازنہ سابقہ بشپ وولوچ  ڈاکٹر رابنس کی اپنی کتاب  کے  لفظوں کے ساتھ کر ے ۔اُس کی کتاب "خُدا کے ساتھ مخلص "میں ایک ایسی عبارت ملتی ہے  جہاں وہ یہ بیان کر رہا تھا کہ زیادہ تر مسیحیوں کا یسوع کے بارے کسطرح کا نظریہ ہے: "یسوع پیدا ہوا اور پیداکرنے والا آدمی نہیں تھا۔وہ خُدا تھا جس نے ایک محدود مدت کے لئے ایک چیریڈ میں حصہ لیا۔وہ ایک آدمی کی طرح نظر آتا تھا لیکن اُس کے نیچے وہ خُدا کا لباس پہنا ہوا تھا۔ جیسے فادر کرسمس۔"

چرچ کے بہت سے لوگوں کو بشپ کا کرسمس پر یہ حوالہ  ناگوار لگتا ہے اس کے باوجود وہ متفق ہیں کہ چرچ کی تعلیم کا یہ ایک عمدہ بیان ہے۔اگر یسوع حقیقت میں خُدا تھا یا پھر ایک مُقرب فرشتہ جو ایک دفعہ آسمان میں رہتا تھا تو وہ کبھی بھی ایک حقیقی آدمی (انسان ) نہیں تھا بلکہ ایک الٰہی شخص تھا جو انسانی جسم میں ملبوس ہے۔ لیکن نیا عہد نامہ اس سے متفق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ یسوع کو ایک انسان کے طور پر بیان کرتا ہے۔اوریہی ہماری پہلی وجہ یہ سوچنے کی ہے کہ یسوع مسیح کے بارے میں عال نظریے (پہلا اور دوسرا) غلط ہے۔

یسوع کی پیدائش

 خداوند یسوع مسیح کی پیدائش ایک زبردست معجزےکا نتیجہ تھا۔اُس کی ماں ایک جوان غیر شادی شدہ عمدہ کردار رکھنے والی عورت تھیں۔وہ ایک کنواری تھیں۔اور یہ اس طرح سے ہوا: فرِشتہ نے اُس سے کہا اَے مر یم! خَوف نہ کر کیونکہ خُدا کی طرف سے تُجھ پر فضل ہُؤا ہے۔ اور دیکھ تُو حامِلہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا ۔ اُس کانام یِسُو ع رکھنا۔ وہ بزُرگ ہو گا اور خُدا تعالےٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خُداوند خُدا اُس کے باپ داؤُد کا تخت اُسے دے گا۔ اور وہ یعقُو ب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا اور اُس کی بادشاہی کا آخِر نہ ہو گا۔ مریم نے فرِشتہ سے کہا یہ کیوں کر ہو گا جبکہ میں مَرد کو نہیں جانتی؟۔ اور فرِشتہ نے جواب میں اُس سے کہا کہ رُوحُ القُدس تُجھ پر نازِل ہو گا اور خُدا تعالےٰ کی قُدرت تُجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مَولُودِ مُقدّس خُدا کا بیٹاکہلائے گا۔(لوقا30:1-35)

ان آیات میں لکھی ہوئی باتوں کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کریں کیونکہ ان میں سیکھنے کےلیے بہت کچھ ہے۔ بچہ مریم کا اپنا بیٹا تھا۔فرشتے نے یہ نہیں کہا تھا کہ "مریم آپ ایک جسمانی بدن کو اپنے پیٹ میں ایک الہی شخص کے لئے تیار کریں گی اور وہ آکر رہے گا۔"بلکہ اُس نے کہا" دیکھ تُو حامِلہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا ۔"ان الفاظ کو واضح طور پر لفظی زبان میں سمجھنا تھا۔جو ایک نئی انسانی زندگی کے آغاز کو بیان کرتے ہیں نہ کہ  کسی الٰہی شخص کے زمین پر آنے کو بیان کرتے ہیں۔اور یہ بھی اگر یسوع اپنی ماں مریم سے لاکھوں سال بڑا ایک خُدائی شخص تھاتو  کیا وہ سچ میں اُس کا بیٹا ہو سکتا تھا؟

پھر بھی وہ اُس کا نہ صرف پالنے والا بچہ بلکہ بیٹا تھا۔اناجیل میں مریم کو کبھی بھی یسوع کی لے پالک ماں نہیں بلکہ ماں کے نام سے بُلایا گیا ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو اگرچہ ایک آدمی یوسف جس نے بعد میں یسوع کی ماں سے شادی کی اُس کو بعض جگہوں پر یسوع کا باپ کے نام سے پُکارا گیا ۔ہم اصل حقائق کے بارے میں کسی بھی بات کو پیچھے نہیں چھوڑتے ہیں۔لوقا نے یسوع کو بطور یوسف کا بیٹا (جیسا کہ سمجھا جاتا تھا )کا حوالہ بھی دیا۔ (لوقا 23:3)

لہٰذا  یسوع حقیقت میں مریم کا بیٹا تھا نہ کہ کوئی خُدائی شخص جو مریم کا بیٹا ہونے کا بہانہ کررہا تھا۔اور جیسا کہ بچے کرتے ہیں اُس نے بھی اپنی ماں سے بہت سے کاموں میں مدد لی اور یہی وجہ ہے جو یسوع کو اصل میں ایک آدمی(انسان ) بناتی ہے۔  حقیقت میں انسان پیدا ہونے سے پہلے آسمان میں نہیں رہتے اور نہ ہی یہ آدمی رہا ۔اُس کا معجزاتی طور پر پیٹ میں پڑنا اور پیدا ہونا ایک آدمی کی حیثیت سے اُس کے وجود کی ابتدا تھی۔انسانی فطرت بہت کمزور اور بہت ساری آزمایشوں سے بھری پڑی ہےجسے ہم بعد میں دیکھے گے ۔یسوع کو انسانی کمزور فطرت اُسکی والدہ ( ماں )سے ملی تھی۔مگر یہ صرف آدھی کہانی ہے۔کیونکہ فرشتہ نے واضح کیا کہ مریم کا بیٹا ، خدا کا بیٹا بھی کہلائے گا۔" خُدا تعالےٰ کی قُدرت تُجھ پر سایہ ڈالے گی اور اِس سبب سے وہ مَولُودِ مُقدّس خُدا کا بیٹاکہلائے گا۔" فرِشتہ نے کہا  ۔           (لوقا35:1)

اِسی لیے یسوع نے اپنے آسمانی باپ سے بھی وراثت میں بہت کچھ لیا۔ خُدا اُسکا باپ تھا اور خُدا کی طرف سے اُس نے ہمیشہ راست رہنے کی تمنا(خواہش )کو وارثت میں لیا اور یہ وہ تھی جس نے اُس کی انسانی کمزور فطرت پر غالب آنے میں مدد کی ۔ یعنی آزمایش سے لڑنا اور اُس پر غالب آنا۔

یسوع کا بچپن

  یسوع مسیح کے پچپن کے بارے میں ہمیں بہت کم بتایا گیا ہیں۔ اور ایک چیز جو ہمیں بتائی گئی ہیں وہ بہت خاص ہے۔لوقا نے بیان کیا  کہ کسطرح سے یسوع کی نشوونما ہوئی۔    "اور یِسُو ع حِکمت اور قد و قامت میں اور خُدا کی اور اِنسان کی مقبُولیّت میں ترقّی کرتا گیا۔" (لوقا 52:1)                                             اور وہ لوگ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یسوع حقیقت میں خُدا تھا وہ اس آیت کی طرف سے الجھن میں پڑ رہے ہیں کہ کیسے خُدا              دانائی اور اپنی ہی نظر میں آگے بڑھ رہا ہے؟۔                  یہ نظریہ بہت ہی بے ہوده ہے۔ ظاہر ہے کہ لوقا کا یہ یقین نہیں تھا کہ یسوع خُدا تھا جو ایک مدت کےلیے ایک لڑکے کے جسم میں سکونت کر رہا تھا۔ دوسرے نظریہ کے بارے میں  کہ یسوع ایک آسمانی طاقتور فرشتہ جو  ایک لڑکے کے جسم میں نشوونما  کر رہا تھا؟ یہ بھی بہتر نہیں ہے۔  اس طرح کا فرشتہ زمین پر آنے سے قبل ہی یقینی طور پر کامل ہوگا۔ ایک فرشتہ بھی  ایک لڑکے کے جسم میں حکمت اور خُدا کی مقبُولیّت میں ترقّی نہیں کر سکتا ۔  یہ دونوں نظریے نہیں بلکہ یہ آیت ایک حقیقی لڑکے کی ترقّی کو بیان کرتی ہے۔اُسکے جسم نے ترقی پائی۔ اس کی حکمت کا ذخیرہ مستقل طور پر بڑھا ہوا تھا اور اُس کا کردار اِس قدر پختہ ہوا کہ اُسکا آسمانی باپ یہوواہ زیادہ سے زیادہ اُس سےخُوش ہوا۔

یسوع کا آزمائش پر غالب آنا

یہ کہا جاتا ہے کہ پیشہ ور باکسر یا پہلوان کبھی کبھی لڑائی سے پہلے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور سودے بازی کرتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کو درد (تکلیف) نہ دینے پر راضی ہوتے ہیں لیکن ہجوم (لوگوں) کی خاطر وہ خود کو ایسے دکھائیں گے جیسے وہ سخت لڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ ٹھٹھے بازی کی لڑائی کون جیتے گا اور ظاہر ہے کہ وہ انعام کی رقم آپس میں بانٹنے پر بھی راضی ہوتے ہیں۔اس طرح کی دھوکہ دہی کا ایک نام ہے۔ اسے "آسان کام(مطلب کسی طرح سے کام نکلوانااور یہ ایک رشوت کی بھی شکل ہے)"          کہا جاتا ہے۔

 

اب خداوند یسوع کو بائبل میں انسانی ٹھوکروں (آزمائشوں) کے خلاف زبردست جنگ لڑنے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اُس نے ہر روزاور ہر وقت ٹھوکر (آزمائش ) کا مقابلہ کیااور جیتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آزمائش کیا ہے۔ اگر یسوع سچ میں ایک انسان تھا  تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی  جدوجہد کیا تھی۔لیکن اگر یسوع انسانی جسم میں ایک آسمانی وجودتھا تو پھر یہ لڑائی بالکل بھی نہیں ہو سکتی بلکہ یہ ایک آسان کام تھا۔ کیونکہ خدا یا فرشتہ کو ہماری طرح آزمائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔کیونکہ بائبل بتاتی ہے کہ " نہ تو خُدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے۔"(یعقوب 13:1)             جبکہ ہمیں یسوع کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ " کیونکہ ہمارا اَیسا سردار کاہِن نہیں جو ہماری کمزورِیوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تَو بھی بے گُناہ رہا۔(عبرانیوں 15:4)

اور ایک دفعہ جب یسوع آزمائش کے خلاف لڑ رہا تھا تو اُس نے خُدا سے کہا  کہ " میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پُوری ہو۔"  (لوقا 42:22)— ظاہر ہے کہ یسوع کی اپنی مرضی تھی جسے کچلنا پڑا ،تاکہ بجائے اپنی مرضی کےخُدا کی مرضی پوری ہو۔اگر وہ سچ میں آدمی (انسان )ہی تھاتو ہم اس آیت کو سمجھ سکتے ہیں مگر یہ کوئی سمجھ داری کی بات نہیں کہ یسوع حقیقت میں خُدا یا فرشتہ انسانی جسم میں تھا۔

یسوع مسیح کامل کیسے بنے

دو بہت مختلف طریقے ہیں جن میں کوئی چیز کامل سے کم ہوسکتی ہے۔ ان کے درمیان فرق کونکالنا ضروری ہے۔

ایک پرانا مکان جو گرنے کے لئے تقریبا تیار ہے کامل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بوسیدہ ہےاس میں بہت غلط ہے۔

ایک نیا مکان جو صرف نصف(آدھا) تعمیر ہوا ہے وہ بھی کامل نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک مختلف قسم کی ناکاملیت ہے۔ اس آدھے بنے مکان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جہاں تک چل سکتا ہے اُس لحاظ سے یہ ٹھیک ہے لیکن یہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔

اب یسوع پہلے معنوں میں کبھی بھی نامکمل نہیں تھا۔ اُس کے ساتھ کبھی بھی کچھ غلط نہیں تھا ۔ اس نے کبھی گناہ نہیں کیا ایک بار بھی نہیں گناہ کیا۔ بہر حال ، اس کے کردار کو آہستگی سے تیار کیا گیا  جیسے مکان تعمیر کیا جاتا ہے جب تک مکان مکمل نہ ہوجائے۔ اس طرح سے اُسے کامل ہونا پڑا۔ جیسا کہ یہ  بائبل کے حوالہ جات یہ ظاہر کرتے ہے کہ "اور باوُجُود بیٹا ہونے کے اُس نے دُکھ اُٹھا اُٹھا کر فرمانبرداری سِیکھی۔ اور کامِل بن کر اپنے سب فرمانبرداروں کے لِئے ابدی نجات کا باعِث ہُؤا۔"                          (عبرانیوں 8:5-9)                    

"کیونکہ جِس کے لِئے سب چِیزیں ہیں اور جِس کے وسِیلہ سے سب چِیزیں ہیں اُس کو یِہی مُناسِب تھا کہ جب بُہت سے بیٹوں کو جلال میں داخِل کرے تو اُن کی نجات کے بانی کو دُکھوں کے ذرِیعہ سے کامِل کر لے۔"                           (عبرانیوں10:2)

ایک بار پھر یہاں واضح ہوجاتا ہے کہ مشہور نظریہ میں کچھ بّری طرح سے غلط ہے کہ یسوع ایک خُدائی وجود تھا جس نےایک  انسانی جسم کا لباس پہنا ہوا تھا۔ کیا آپ اس طرح کے وجود کا "دُکھ اُٹھا اُٹھا کر فرمانبرداری سِیکھنا" تصور کرسکتے ہیں؟ کیا آپ اس طرح کے خدائی شخص کا"تکلیف کے ذریعہ کامل بننا" تصور کر سکتے ہیں ؟بالکل نہیں۔ ہمارے یہاں ایک حقیقی آدمی کی تفصیل ہے جو ایک مکمل کردار کی تشکیل کرتی ہے۔اگر یسوع خود خدا ہوتا یا مُقّرب فرشتہ ہوتا تو پھر وہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی کامل ہوتا۔لیکن ایسا نہیں تھا۔یسوع کے بارے میں ہمیں صاف صاف کہا جاتا ہے کہ صرف زمین پر اپنے دُکھوں کے ذرِیعہ کامِل بنا۔

یسوع کی صلیب پر موت

خداوند یسوع کی موت بھی اُن لوگوں کے لئے ایک پریشانی کاباعث ہے جو معمول کے مطابق اُسکی فطرت کے نظریہ کے بارے میں خیالات رکھتے ہیں ۔بائبل کہتی ہے کہ  خدا کبھی مر نہیں سکتا۔ (دانی ایل 7:12) ، (۱-تِیمُتھِیُس 16:6)

اور نہ ہی فرشتے مر سکتے ہیں۔(متی 30:22)                                 جب کہ سب جانتے ہیں کہ یسوع کی موت صلیب پر ہوئی تھی ۔کچھ لوگوں کاسوچنا ہے کہ اُن کے پاس اس سوال کا جواب ہے اور وہ کہتے ہیں "ہاں، وہ تو بس اُس کا جسم تھا جو مر گیا تھا  جبکہ روح جسم کے اندر  ہی رہتی ہے۔" اور یہ بات کام نہیں کریگی ۔ بائبل کہتی ہے کہ یہ صرف یسوع کا جسم ہی نہیں تھا جومر گیا تھا۔کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ " اُس نے اپنی جان مَوت کے لِئے اُنڈیل دی۔"(یسعیاہ 12:53)                                اور مزید یہ کہ بائبل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ یسوع کےلیے موت اُتنی ہی خُوفزدہ تھی جتنا ہم موت سے ڈرتے ہیں۔موت یسوع کے لیے ایک خوفناک آزمائش تھی جس طرح ہمارے لئے ہے۔" اُس نے اپنی بشرِیّت کے دِنوں میں زور زور سے پُکار کر اور آنسُو بہا بہا کر اُسی سے دُعائیں اور اِلتجائیں کِیں جو اُس کو مَوت سے بچا سکتا تھا اور خُدا ترسی کے سبب سے اُس کی سُنی گئی۔"                 (عبرانیوں 7:5)               یہ بھی اس بات کا مضبوط ثبوت ہے کہ یسوع انسان کی شکل میں نہ تو خدا اور نہ ہی ایک فرشتہ تھا ۔کیا اس طرح کا وجود (جسم) اپنا عارضی انسانی جسم  کے کھو نے کے خیال سے بڑی پریشانی کا شکار ہوگا؟۔یقیناً صرف ایک حقیقی انسان جو حقیقت میں مرنے کے قریب ہو  وہ ہی موت کو قریب آتے دیکھ کر ایسے کر سکتا ہے۔

 

 

کیوں یسوع خُدا کے دہنے ہاتھ بیٹھا ہوا ہے؟

 اس موجودہ وقت میں یسوع خدا کے داہنی طر ف بیٹھا ہوا ہے۔(زبور 1:110)(عبرانیوں 13:1) ان الفاظ میں اور مختلف دیگر طریقوں سے بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع کتنا عظیم (بڑا )ہے۔یسوع  تمام مخلوقات میں  خود خُدا کے بعد دوسری  عظیم شخصیت  ہے۔ اب فرض کریں کہ ہم نے یہ سوال پوچھنا ہے  "یہ کیوں ہے؟ یسوع اتنا عظیم (بڑا )کیوں ہے؟ خدا نے اسے اتنا اونچا مقام کیوں دیا ہے؟" وہ لوگ جو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع خُدا یا فرشتہ ہے اُن کے پاس یہ آسان سا جواب ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں " کیونکہ وہ ہمیشہ بہت اچھا تھا۔ وہ زمین پر آنے سے پہلے ہی آسمان  میں ایک بڑائی(عظمت والی ) روح تھا۔ اُس کے بعد وہ واپس وہاں چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔ وہ وہاں اونچے مقام پر جا بیٹھا جہاں سے وہ آیا تھا۔"

لیکن یہ بائبل کا جواب نہیں ہے۔ کیونکہ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع زمین پر اپنی زندگی کے بعد عظیم (بڑا) ہوا۔ یہ بتاتی ہے کہ اُسے تب عظمت ملی جب خدا نے اُسے عظیم بنایا۔ اور یہ ہمیں وقتا فوقتا بتاتی ہے کہ خدا نے اُسے بُہت سر بُلندکِیاکیونکہ جو کام یسوع نے زمین پر کیے اُن کی وجہ سے وہ اِس کا عظمت کا مستحق تھا ۔     عبرانیوں 9:2 میں لکھا ہے کہ "البتّہ اُس کو دیکھتے ہیں جسے مَوت کا دُکھ سہنے کے سبب سے جلال اور عِزّت کا تاج پہنایا گیا ہے ۔"                        اور زبور 14:91 میں لکھا ہے کہ    "چُونکہ اُس نے مُجھ سے دِل لگایا ہے اِس لِئے مَیں اُسے چُھڑاؤُں گا۔ مَیں اُسے سرفراز کرُوں گا کیونکہ اُس نے میرا نام پہچاناہے۔"                        (زبور7:45میں لکھا ہے )                     " تُو نے صداقت سے مُحبّت رکھّی اور بدکاری سے نفرت اِسی لِئے خُدا تیرے خُدا نے شادمانی کے تیل سے تُجھ کو تیرے ہمسروں سے زِیادہ مَسح کِیا ہے۔

"( فِلپّیوں 8:2-9)                    "اور اِنسانی شکل میں ظاہِر ہو کر اپنے آپ کو پَست کر دِیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ مَوت بلکہ صلِیبی مَوت گوارا کی۔  اِسی واسطے خُدا نے بھی اُسے بُہت سر بُلندکِیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔"                                        یہ  یقینا اختتامی پُختہ ثبوت ہے کہ یسوع ایک حقیقی آدمی ہے۔ ایک حقیقی آدمی کے باوجود ایک بہت ہی خاص آدمی بھی ہے۔ واحد وہ انسان ہے جس نے انسانی آزمائش (ٹھوکر)کو مکمل طور پر فتح کیا۔ اسی لئے اب وہ خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھا ہواہے۔

 

 

 

خدا کے نقطہ نظر سے چیزوں کو  دیکھنا

صفحہ نمبر  1 اور 2 پر ہم نے یسوع کے الفاظ "میں آسمان سے نیچے آیا ہوں" پر غورو فکر کی ۔بائبل پر مبنی گیت "ہمارے آس پاس ہر اچھے تحائف (تحفے )آسمان سے بھیجے گئے ہیں۔" کے الفاظ کو یاد کریں۔  ہم نے دیکھا کہ یسوع  کے یہ الفاظ آسانی سے علامتی ہوسکتے تھے نہ کہ لفظی ۔

اب ہم ایک زیادہ پُختہ نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی ساری سادہ تعلیم کی روشنی میں دیکھا اور ہم یقین کر سکتے ہیں کہ یسوع ایک حقیقی آدمی تھااور اسی وجہ سے  "آسمان سے نیچے آنے" کے بارے میں اُن کے الفاظ محض علامتی  ہونا ضروری ہے۔ اب ہم اس کا یقین کر سکتے ہیں کہ اُس کا واضح طور پر مطلب یہ تھا کہ اُس کی زندگی اُس وقت شروع ہوئی جب خُدا قادر مطلق آسمان سے زمین پر آیا اور اُسکی  ماں مریم پر ایک زبردست معجزہ کیا۔

مگر ابھی ایک ایک حیران کُن آیات باقی ہیں۔ مثال کے طور پر یوحنا5:17 کے الفاظ ہیں۔ جہاں یسوع اُس جلال کا ذکر کرتا ہے جو وہ "  دُنیا کی پَیدایش سے پیشتر رکھتا تھا " اور کچھ دوسرےبھی ؟بائبل کے حوالہ جات جہاں  بالکل اِسی طرح کے اظہارات واقع ہوتے ہیں ۔ اب سوال یہاں یہ ہے کہ کیا یہ بھی علامتی زبان ہو سکتی ہے؟            جی ہاں ! یہ حقیقت میں ہوسکتی ہے۔ لیکن اس طرح کی باتوں کے معنی کی تعریف کرنے کے لیے ہمیں تمام باتوں کو خدا کے نقطہ نظر سے دیکھنے کے لئے ایک خصوصی ممکن کوشش کرنی چاہیے۔کیونکہ خُدا کے نظریہ اور ہمارے نظریہ کے درمیان بہت سارے فرق پائے جاتے ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ  ہے جو ابھی ہمارے لئے فکر مند ہے ۔ہمارے نزدیک مستقبل میں کیا ہوگا یہ ہمیں معلوم نہیں ہے ہم صرف اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہوگا۔لیکن خُدا مستقبل کو جانتا ہے اُس کے لیے کل بھی اُتنا ہی حقیقی ہے جتنا ہمارے لیے آج ہے اور یہی وجہ ہے کہ بائبل کی پیشنگوئیاں ہمیشہ پوری ہوتی ہے۔

پولُس نے رومیوں 17:4 میں اس حقیقت پر پولس نے رومیوں 4: 17 میں اس حقیقت پر تبصرہ کیا۔اُس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ خُدا نے پیدائش کی کتاب میں کہا تھا کہ"میں نے تجھے بہت سی قوموں کا باپ ٹھہرا دیا ہے۔" اس بات پر غور کریں "ٹھہرا دیا ہے" یہ نہیں کہا کہ میں "تجھے بناؤنگا" بلکہ یہ کہا کہ "میں نے تجھے ٹھہرا دیا ہے۔" اُس وقت ابرہام کا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔ مگر جب خدا کسی چیز کا وعدہ کرتا ہے تو وہ وعدہ یقینی ہوتا ہےاور وہ بات جسطرح سے کی جاتی ہے  ویسے ہی پوری بھی ہوتی ہے۔مگر جب کوئی شخص (آدمی، انسان) کوئی وعدہ کرتاہے تو وہ عام طور پر کہتا ہے "میں اِسی طرح کرونگا۔"      لیکن خدا  اپنے نبیوں کے ذریعہ مستقبل کے بارے میں دلیری سے کہتا ہے " میں نے ایسا ہی کردیاہے " جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یقینا یہ کرنے والا ہے۔رومیوں 17:4آیت کے بقیہ میں پولُس اِسی سبق  کی طرف متوجہ کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ خُدا         "جو چِیزیں نہیں ہیں اُن کو اِس طرح بُلا لیتا ہے کہ گویا وہ ہیں۔"

مستقبل خدا کے لئے حقیقی ہے

پولس رسول کی تھوڑی مدد سے اب ہم نے ایک اہم اصول قائم کیا ہے۔ ہمارے نزدیک صرف ماضی اور حال ہی حقیقی ہے۔ مستقبل ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔لیکن خدا مختلف ہے۔ وہ مستقبل کو بالکل دیکھ سکتا ہے۔ مستقبل خدا کے لیے اُتنا ہی حقیقی ہے جتنا ہم انسانوں کے لیے آج حقیقی ہے۔ اس سے یہ نتیجے نکلتا ہے کہ خدا مستقبل کے بارے میں گویا ایسے بات کرسکتا ہے جیسے یہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔بائبل میں بہت سی جگہیں (عبارتیں ، آیات )ہیں جہاں خدا نے بالکل اِسی طرح کیا ہے۔ ان میں سے تین یہ ہیں۔

                          تب خُداوند کا کلام مُجھ پر نازِل ہُؤا اور اُس نے فرمایا۔اِس سے پیشتر کہ مَیں نے تُجھے بطن میں خلق کِیا ۔ مَیں تُجھے جانتا تھا اور تیری وِلادت سے پہلے مَیں نے تُجھے مخصُوص کِیا اور قَوموں کے لِئے تُجھے نبی ٹھہرایا۔(یرمیاہ 4:1-5)

لہٰذا خُدا یرمیاہ کو آدمی پیدا ہونے سے پہلے جانتا تھا۔ ظاہر ہے یہ علامتی زبان ہے اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ یرمیاہ حقیقت میں اپنی پیدائش سے پہلے کوئی وجود رکھتا تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا مستقبل کو یرمیاہ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی دیکھ سکتا تھا۔کسی اور طرح سے اس کا اظہار یہ ہے کہ یرمیاہ پیدا ہونے سے قبل  خُدا کے ذہن میں موجود تھا۔

                               "  چُنانچہ اُس نے ہم کو بنایِ عالَم سے پیشتر اُس میں چُن لِیا تاکہ ہم اُس کے نزدِیک مُحبّت میں پاک اور بے عَیب ہوں۔اور اُس نے اپنی مرضی کے نیک اِرادہ کے مُوافِق ہمیں اپنے لِئے پیشتر سے مُقرّر کِیا کہ یِسُو ع مسِیح کے وسِیلہ سے اُس کے لے پالک بیٹے ہوں۔" (افسیوں 4:1-5)

تو یہ صرف یرمیاہ ہی نہیں تھابلکہ خدا نے اپنی اکلیسیا کے رُکن کو بھی پیدا ہونے سے پہلے ہی جانتا تھا ۔ یہ بھی  علامتی زبان ہے جو مستقبل کے بارے میں خدا کے علم پر مبنی ہے۔ اس حوالہ کےبقیہ حصے میں پولس نے لفظی زبان میں اس کا مطلب بھی بتایاکہ "خدا نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ہمیں اپنے پاس لے آئے گا۔

                        " اُس کا عِلم تو بِنایِ عالَم سے پیشتر سے تھا مگر ظہُور اخِیرزمانہ میں تُمہاری خاطِر ہُؤا۔"(1پطرس 20:1)

یہاں سے ہمیں انگریزی زبان کا لفظ "Prognosis" ملتا ہے ۔ اور اس حوالے میں لفظ " عِلم ،مقدر       Destined  " دلچسپ ہے ۔ یہ یونانی لفظ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب           "پہلے سے معلوم ہے"                  یہ یونانی لفظ کی ایک شکل ہے۔         

لفظ تشخیص (Prognosis)زیادہ تر ڈاکٹروں کے ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے اور اِس کا یونانی میں بھی برابر مطلب "پیشگی علم"  ہے۔

مثال کے طور پر ڈاکٹر یہ کہہ سکتا ہے۔" اس شخص کو پیٹ کا کینسر ہے۔ میری تشخیص یہ ہے کہ خون لگا تار بہتا رہے گا اور وہ ایک ماہ کے اندر ہی مر جائے گا"                 بلاشبہ ڈاکٹر غلطیاں کرسکتے ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اُن کی تشخیص موسم کی پیشن گوئی کی طرح اکثر غلط ثابت ہوتی ہے۔ مگر خُدا مختلف ہے۔ وہ واقعی پہلے سےسب جانتا ہے۔ خدا کی طرف سے ایک تشخیص بالکل یقینی ہے۔ تو اس کا مطلب مذکورہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا نے یسوع کے بارے میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر ہی سب کچھ جانتاتھا۔ یہ صرف وہ بات ہے جس کی ہم توقع کرسکتے ہیں۔ ہم نے پچھلے حوالوں میں دیکھا  کہ خدا دنیا کی پیدائش سے قبل ہی ابتدائی مسیحیوں کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔یرمیاہ ، ابتدائی اکلیسیا اور خُداوند یسوع مسیح یہ سب خُدا کے ذہن (دماغ)میں ابتداء ہی سے موجود تھے۔تو یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ یسوع کو آسمان میں اپنے باپ کو یہ کہنا چاہئے تھا " اُس جلال سے جو مَیں دُنیا کی پَیدایش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مُجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔"(یوحنا 5:17)                   اب ہم جانتے ہیں کہ اُس کا اس بات سے کیا مطلب تھا۔

خُدا بڑے بڑے منصوبے باندھنے والا              یا                     خُدا        زبردست منصوبہ ساز

جب بھی مرد کسی بھی اہم کام کی تجویز کرتے ہیں تو وہ منصوبہ تیار کرکے شروع کردیتے ہیں۔ حملہ کرنے سے پہلے آرمی کمانڈر جنگ کے لیے ایک  منصوبہ تیار کرتا ہے  اور اسے اپنے جنرلز کے سامنے ظاہر کرتا ہے۔ کسی بھی بڑی عمارت کو کھڑا کرنے سے پہلےایک معمار اُس کا منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ انسانوں کے منصوبے اکثر ختم نہیں ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ دشمن حیرت انگیز حرکت کرے اور جنرلزکے لئے اپنا حملہ شروع کردے۔ گاہک کے پاس  پیسہ ختم ہوسکتا ہے اور وہ معمار سے کہتا ہے کہ وہ اپنی خطوط کشی( ڈرائنگیں )پھاڑ دے۔لیکن کچھ بھی خدا کو اس دنیا کے لئے اپنے منصوبے پر عمل کرنے سے نہیں روک سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں وہ بولتا ہے  جیسے اُسکے منصوبہ کا کام شروع ہونے سے قبل ہی مکمل ہوچکا ہے۔ پُرانے عہد نامے خدا کے منصوبے کا ایک نام تھا جسے خُدا کی "حکمت" کہاجاتا تھا۔ نئی بائبل لغت (جو چرچ والوں نے لکھی ہے کرسٹاڈیلفئین کے ذریعے نہیں)بتاتی ہے کہ پُرانے عہد نامے میں حکمت کا مطلب ہے خُدا کی غیر معمولی قوت کی تکمیل جو اُس کے دماغ میں ہے۔ یہ ایک اچھا بیان (تعریف )ہے۔ یہ مندرجہ ذیل پرانے عہد نامے کی آیات پر بہت اچھی طرح سے فٹ بیٹھتا ہے۔

امثال 8باب 1 سے 23 آیات میں یوں لکھا ہے۔                        " کیا حِکمت پُکار نہیں رہی اور فہم آواز بُلند نہیں کر رہا؟  ۔۔۔۔۔۔  پھاٹکوں کے پاس شہر کے مدخل پر یعنی دروازوں کے مدخل پر وہ زور سے پُکارتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔  خُداوند نے اِنتظامِ عالَم کے شرُوع میں اپنی قدِیمی صنعتوں سے پہلے مُجھے پَیداکِیا۔  مَیں ازل سے یعنی اِبتدا ہی سے مُقرّر ہُوئی۔ اِس سے پہلے کہ زمِین تھی۔"

دوسرے لفظوں میں جیسا کہ یہودی کہتے ہیں اس سے قبل کہ خدا نے اس دنیا پر کام شروع کیا  اُس نے حکمت سے اپنا منصوبہ تیار کیا ۔ یونانی جو کسی معبودیا معبودوں پر یقین رکھتے تھے  نہ کہ بائبل کے خُدا پر اُنہوں نے بھی اس کو ایک مختلف نام دیا۔ انہوں نے اسے خُدا کا "کلام" کہا۔ اسی بائبل لغت(ڈکشنری )کا کہنا ہے کہ "کلام" کا  یونانی زبان میں مطلب ہے "دونوں خُدا کا منصوبہ اور خُدا کی تخلیق کی قدرت ۔"

یہ مددگار ہے کیونکہ یہ ہمیں یوحنا کی  انجیل کے پہلے باب کو سمجھنے کے قابل بناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوحنا نےیونانی نظریہ  خدا کے کلام کو یہودی نظریہ خدا کی حکمت کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اُس کا انجیل شروع ہوتی ہے  "ابتدا میں کلام تھا۔"                                 کچھ لوگ اس حوالے سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے ۔دوسرے سوچتے ہیں کہ وہ رکھ سکتے ہیں  لیکن وہ اس سے غلط معنی (مطلب) نکالتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کلام ایک جِیتی جان ہے۔ (اس وجہ سے ہی ان حوالہ جات میں انگریزی مترجمین نے بائبل میں "وہ" کے طور پر لفظ کو استعمال کیاہے۔ جبکہ "وہ"  یونانی لفظ کا مطلب  "یہ" بھی ہے اور اس طرح سے ہی یہاں اس کا ترجمہ کیا جانا چاہئے تھا۔  اور اگر اب ہم خُدا کے کلام کے لفظ کی جگہ خُدا کے منصوبے اور لفظ وہ کی جگہ یہ کا استعمال کریں تو یوحنا باب 1 سے ہم پھر یہی سیکھتے ہیں۔"اِبتدا میں منصوبہ (کلام) تھا اور منصوبہ (کلام) خُدا کے ساتھ تھا اور منصوبہ (کلام) خُدا تھا۔ یہی اِبتدا میں خُدا کے ساتھ تھا۔ سب چِیزیں اُس کے وسِیلہ سے پَیدا ہُوئِیں اور جو کُچھ پَیدا ہُؤا ہے اُس میں سے کوئی چِیز بھی اُس کے بغَیرپَیدا نہیں ہُوئی۔ اُس میں زِندگی تھی اور وہ زِندگی آدمِیوں کا نُور تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔  اور منصوبہ (کلام )مُجسّم ہُؤا اور فضل اور سچّائی سے معمُور ہو کر ہمارے درمِیان رہا اور ہم نے اُس کا اَیسا جلال دیکھا جَیسا باپ کے اِکلَوتے کا جلال۔( یُوحنّا1:1-14)

یوحنا کے یہ الفاظ بائبل کی تعلیم کاخوبصورتی سے خلاصہ کرتے ہیں۔ یسوع ابتدا ہی سے آسمان میں موجود تھے مگر ایک شخص کی حیثیت سے نہیں بلکہ وہ خدا کے ذہن میں ایک عظیم خیال ،خدا کی منصوبہ بندی کے طور پر موجود تھا ۔جب تک وہ  بَیت لحم میں پیدا نہیں ہوا اس وقت تک وہ بطور فرد موجود نہیں تھا۔ پھر یوحنا کے جملے میں "منصوبہ (کلام )مُجسّم ہُؤا"۔

 

 

 

 

یسوع کو عزت دینا

اب جب ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ بائبل حقیقت میں یسوع کے بارے میں کیا تعلیم دیتی ہے ہم اُسی طرح سے اُس کی تعظیم کرنا شروع کر سکتے ہیں جو  شاید ہم نے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ آپ کو لگتا ہیں کہ ایسا کیوں ہے تو آپ دوبارہ جو ہم نے بات چیت کی اُس پر  غوروفکر کریں ۔ہم نے دیکھا کہ بائبل میں2اقسام کی  زبانیں ہیں۔ لفظی زبان جس کا مطلب بالکل وہی جو الفاظ کہے رہے ہوتے ہےاور ایک علامتی زبان ہے  جس کے گہرے معنی ہیں۔ اُس وقت جب یسوع نے کہا تھا کہ وہ آسمان سے اُترا ہے وہ کبھی بھی ذاتی (شخصی )طور پر آسمان میں نہیں تھا۔ لہذا اس کی باتیں لفظی طور پر درست نہیں ہوسکتی ہیں اس لیے میرے پاس ایک علامتی معنی ہونا چاہئے۔ کیونکہ خدا سب کچھ جو مستقبل میں ہوگا جانتا ہے ۔ جب قادرِ مُطلق کچھ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو جیسے وہ سوچتا ہے ویسے ہی ہوتا ہے۔ تو اس سے پہلے کہ خُدا  نے دنیا کو پیدا بنایا اُس نے ایک منصوبہ تیار کیااوریسوع ہی اُس منصوبے کی ابتدا اور اُس منصوبے کا سب سے اہم حصہ تھا۔ یسوع کے پیروکار بھی اُسی منصوبے میں تھے۔ وہ اور اُن کا خُداوند دونوں ہی دنیا کی تخلیق سے پہلے اپنے وجود کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ نہ یسوع اور نہ ہی اُسکے پیروکار زندہ تھے وہ  یقینا ًصرف خُدا کے ذہن خُدا کے منصوبے کے طور پر موجود تھے۔ اور اس طرح تو علامتی معنوں میں وہ تمام تخلیق کے آغاز سے ہی آسمان میں تھے۔ مگر خداوند یسوع مسیح کی اصل زندگی تب ہی شروع ہوئی جب وہ بَیت لحم میں پیدا ہوا تھا۔ اُس کی پیدائش ایک معجزاتی طور پر ہوئی  خُدا اُس کا باپ تھا اور ایک کنواری اُسکی ماں مریم تھیں اوروہ اُس کی اصل ماں تھی اور وہ اُسکا اُتنا ہی بیٹا تھا جتنا وہ خدا کا بیٹا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ایک حقیقی آدمی (انسان) تھا۔ اس کا مطلب یہ کہ اُس نے  گناہ کی آزمائش کو اُسی طرح برداشت کیا جیسے کوئی دوسرا انسان کرتا ہے۔ لیکن وہ آزمائش پر مکمل طور پر غالب آیا۔ اُس نے ایک بے گناہ زندگی گزاری  اور ایک بہترین کردار تیار کیا۔ اس کے بدلے میں خُدا نے اُسے مُردوں میں سے جِلایا  اور خُدا کے بعد اُسے کائنات کی سب سے بڑی شخصیت بنا دیا۔

اگر خدا کو یہ پسند ہے کہ وہ یسوع کو اِسی طرح عزت دے  تو ہمیں بھی اُسی طرح خُدا کا اور یسوع کا احترام کرنا چاہئے ۔ ہمیں آسمان  کی طرف دیکھنے کے قابل ہونا چاہئے اور خدا سے کہنا چاہئے۔    اِے ہمارے آسمانی باپ آپ کے بیٹے کو بھی اُسی طرح آزمائش سے لڑنا پڑا جس طرح سے میں لڑتاہوں اس لیے وہ جانتا ہے کہ میں کیسے محسوس کر رہا ہوں کیونکہ اُس ہر وہ لڑائی جو آزمائش کے خلاف لڑی اُس پر غالب آیا۔ جب کہ میں اکثر ہار جاتا ہوں۔خُداوند میں یسوع کی زبردست فتح                   کی تعریف کرتا ہوں۔اور خواہش کرتا ہوں کہ اُس مانند اُسکی زیادہ سے زیادہ مثالوں کا استعمال کرتے ہوئے کامل بنو۔

 

مگر میں کمزور ہوں    خُداوند مہربانی سے مجھ پر ترس کھائیں اور میری مدد کریں۔ میری زیادہ مدد اپنے بیٹے کی طرح بننے میں کریں۔ میری پورے دل سے اُس کی پیروی کرنے کی کوشش میں مدد کریں۔ اس سے محبت کرنے اور اس کی عزت کرنے اور اُس کے حکموں کو ماننے میں میری مدد کریں۔قادرِ مطلق خُدا آپ کا بیٹا خود اس تکلیفوں والی زندگی اور موت سے گذرا ہےاس لیے میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے سمجھتا ہے۔ خُدا وند میں اُس کے ذریعہ آپ کی مدد کے لئے دعا کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ آپ میری دعا سنیں گے۔                                    (آمین)

 

 

By Alan Hayward, 1975                              Translated by: Bro Shahzad Gill

                                                                    Email: gill31850@gmail.com


Paper copies of this pamphlet, and many others, are available free from the publishers : 
the Christadelphian Auxiliary Lecturing Society
who may be contacted by email at 
info@christadelphian.org  
or by writing to CALS., P.O. Box 316, Kings Norton, Birmingham B3O 3EA, England.

Scripture Quotations are from the Revised Standard Version of the Bible, copyrighted 1946 and 1952 by 
the Division of Christian Education of the National Council of the Churches of Christ in the USA, except where otherwise stated.